سبز ہلالی پرچم کے آداب اور ہماری بے حسی

0
1093

لوح قلم
(تحریر:ڈاکٹرساجد حسین)
کسی بھی ملک کی پہچان اور شناخت اس ملک کے قومی پرچم سے کی جاتی ہے۔دنیا کی کوئی بھی فیلڈچاہے وہ سائنس،عالمی سیاست،شعبہ تعلیم ،صحت اور کھیل کا میدان ہے میں انٹرنیشنل لیول پرجو بھی مردوزن اپنے ملک کی نمائندگی کرتے ہوئے کوئی کارنامہ سرانجام دیتا ہے تو اسکو قومی پرچم کی سر بلندی جیسے قابل فخر کارنامے کاذمہ دار بتا کر اسکی کامیابی یا کارکردگی کو خوب سراہا جاتا ہے۔ ملک کی سیاسی قیادت،ٹی وی اینکرز،جرنلسٹس، حتیٰ کہ پوری قوم یہی کہتی ہوئی نظر آتی ہے کہ فلاںنے ملک وقوم کا نام روشن کرتے ہوئے قومی پرچم کو دنیا بھر میں بلند کردیا۔بات کرنے کا مقصد یہ ہے کہ کسی بھی ملک کاجو جھنڈا ہوتا ہے وہ اسکا پہلا اور ظاہری روپ سمجھا جاتا ہے۔جب عمران خان 1992کے کرکٹ ورلڈ کپ فائنل میں میلبورن کے میدان پر انگلینڈ کے آخری کھلاڑی کو آﺅٹ کرتے ہیں تو وہ بھی ورلڈ چیمپئن ٹیم کا کپتان ہونے کے ناطے قومی پرچم کو ہاتھ میں پکڑ کربڑے فخر کیساتھ اوپر کرتے دکھائی دیتے ہیں،قومی ہاکی ٹیم کے سابق کپتان شہبازاحمد سینئر جب اپنی ٹیم کو سڈنی میں کھیلے جانیوالے1994کے ورلڈ کپ کا فاتح بنواتے ہیں تو وہ بھی قومی پرچم کو خوشی سے لہراتے ہوئے نظر آتے ہیں،جب کوئی کوہ پیما اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کربرف سے ڈھکی ہوئی دنیا کی بلند ترین چوٹی کو سر کرتا ہے تو وہ بھی چوٹی کے سرے پر پہلا قدم رکھتے ہی قومی پرچم کوگاڑھ کر قابل فخر اندازسے اپنی کامیابی کا اعلان کرتا ہوانظر آتا ہے۔قومی پرچم کوبلندکرنے کے لئے عالمی سطح پر بڑے کارنامے سرانجام دینے والوں کے ایسے بہت سے قصے اور کہانیاں ہیں جن کو ایک کالم میں سمانا بالکل ناممکن ہے۔قصہ المختصر ملک کے پرچم کی سربلندی کے لئے کوئی بھی محب وطن سردھڑ کی بازی لگانے سے گریز نہیں کرتا۔وہ ہرممکن کوشش کرتا ہے کہ اسکی صلاحیتوں اور کاوشوں کی بدولت ملک وقوم کا نام روشن ہونے کیساتھ ساتھ قومی پرچم بھی باقی ملکوں سے اونچالہرانے کاخواب پورا ہوسکے۔ اگر نہیں یقین آتاتو بارڈر پر وطن کی حفاظت کے لئے معمور بہادرجوانوں کی ہی مثال لے لیجئے جو سینے پر گولی کھا کر جھنڈے میں لپٹ کر ہی رخصت ہونے کو اپنی زندگی کااصل مشن سمجھتے ہیں۔وہ قومی پرچم کی عزت اور آبرو کی خاطر جان قربان کرنے سے کسی صورت بھی گزیر نہیں کرتے۔قومی پرچم دیکھنے میں محض کپڑے کا چندفٹ کا ایک ٹکڑا ہوتا ہے مگرحقیقت میں یہ ملک وقوم کی شان وشوکت اور وقار کی نشانی گرداناجاتاہے۔قومی پرچم کے بھی کچھ آداب ہوتے ہیں جیسے ہمارے سبزہلالی پرچم کے آداب ہیں جو کہ ہرباشعور پاکستانی کو بھی یقینا معلوم ہونگے،زیادہ نہیں تو تھوڑا بہت تو علم ہوگا ہی۔اگر نہیں معلوم تو راقم مذکورہ آداب کو لکھنے اور گنوانے کا فریضہ بخوبی جانتا ہے۔پرچم صبح کے وقت لگائیںاور اسے شام ہونے سے پہلے اتارلیں،رات کی تاریکی میں پرچم ہرگز مت لہرائیں،مستول پر لگاتے ہوئے اسے بائیں طرف سے یعنی سفید حصہ کی جانب سے باندھیں،پرچم کو زمین پر نہ گرائیں،کسی بھی قسم کی گندگی سے محفوظ رکھیں،پرچم کو کبھی بھی عمودی رخ یاالٹاکرکے مت لگائیں اور نہ ہی ہلال اور ستارے کارخ بائیں جانب ہو،صوبائی ،فوجی یا دیگر اداروں کے پرچموں کیساتھ لگانے کی صورت میں قومی پرچم ہمیشہ بلند رکھیں،قومی پرچم پر کسی بھی قسم کی تحریر یا تصویر ہرگزمت لگائیں،بازار میں ملنے والے پرچم جن پر تصاویر بنی ہوں نہ خریدیں،آگ یا کسی بھی قسم کی نقصان دہ چیز سے پرچم کودوررکھیں،پرچم کو زمین میں دفن مت کریں اورپرچم والے تابوت کی تدفین سے قبل پرچم کو نکال لیں۔مگر افسوس کہ گورنرپنجاب چوہدری محمد سرور کے آبائی شہر پیرمحل سے قومی اخبارات میں خبر شائع ہوئی کہ عدالت تحصیلداورنائب تحصیلدار پیرمحل کی عمارت مبینہ طور پر عرصہ دراز سے قومی پرچم سے محروم نظر آرہی ہے جبکہ تعینات عملہ کی عدم توجہی اور غفلت کے باعث مذکورہ عمارت پر کسی بھی ذمہ دار نے قومی پرچم لہرانے کی کبھی زحمت ہی گوارہ نہیں کی۔دفتر میں آنے والے سائلین نے متعین عملہ کو عمارت پرقومی پرچم نہ ہونے کاشکوہ کرتے ہوئے نشاندہی کی کہ عمارت کا پرچم چھت پر لہرانے کی بجائے آفس کے احاطہ میں لگے کوڑے کے ڈھیر پر پڑا ہوانظرآرہا ہے۔معلوم پڑنے پر بھی تعینات عملہ کے کان پر جوں تک نہیں رینگ سکی۔تحصیلدار آفس کے عملہ کی جانب سے ہونیوالی قومی پرچم کی بے حرمتی پر شہریوں میںغم وغصہ کی لہر دوڑ گئی اورا نہوں نے کمشنر فیصل آباد اور ڈپٹی کمشنر ٹوبہ ٹیک سنگھ سے فوری نوٹس لینے کا پرزورمطالبہ کیا۔جب فائل میں لگے سب سے اوپر والے قومی اخبار میں یہ خبر پڑھی تو نیچے والے مزید 2اخباروں کے بیک پیج پربھی یہ خبر لگی ہوئی تھی۔دل ودماغ نے یہ بات تسلیم نہ کی تو مذکورہ خبر کو کنفرم کرنے کے لئے وہاں مقرر ایک نجی چینل کے نمائندے کو کال کی تو اس نے اس خبر کی تصدیق کرڈالی۔مزید تسلی کروانے کی غرض سے اس نے تصاویر واٹس ایپ کیں تو ایک منٹ کے لئے دہل کر رہ گیاکہ ایک طرف لوگ قومی پرچم کو دنیابھرمیںبلند کرنے اور اس میں لپٹ کر سفرآخرت پر رخصت ہونے کو اپنی زندگی کاخواب سمجھتے ہیں اور دوسری جانب سرکاری خزانے پر بوجھ بنے ایسے سرکاری نکھٹو اوربے کار ملازم سبزہلالی پرچم کی کیسے بے حرمتی کررہے ہیں۔بات یہیں پر آکر ختم نہیں ہوئی سننے میں یہ بھی آیا کہ اتنی بڑی غفلت کے مرتکب ہونےوالے ملازمین کی بے حسی بارے قومی اخبارات میں خبریں شائع ہونے کے باوجود کسی ذمہ دار یا اعلیٰ آفیسر نے اس بے حرمتی کا کوئی نوٹس نہیں لیاجو کہ سب سے زیادہ تکلیف دہ بات ہے۔پاکستان کے جھنڈے کوڈیزائن کرنے والے سید امیرالدین کدوانی،بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح کے حکم پراپنے ہاتھوں سے تیار کرنے والے ماسٹر الطاف حسین اور دستور سازاسمبلی میں پیش کرنے والے پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خاں شہید کی روحیں بھی یقینی طور پرقومی پرچم کی اس بے حرمتی پر تڑپتی ہوں گیں۔ستم کی بات یہ ہے کہ ہمارے نزدیک قومی پرچم کی بے حرمتی کوئی عیب ہی نہیں سمجھی جاتی۔اگر ہم اپنے قومی پرچم کی عزت نہیں کریں گے تو اقوام عالم بھی اسے روندنے کے درپے ہوجائیں گے پھر یہ مت کہنا کہ خبر نہ ہوئی۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں