ہوم کالم /مضامین کالم لوح قلم تحریر ڈاکٹر ساجد حسین جمہوریت سے سیکولرازم تک

کالم لوح قلم تحریر ڈاکٹر ساجد حسین جمہوریت سے سیکولرازم تک

0

جمہوریت سے سیکولرازم تک
لوح قلم
(تحریر:ڈاکٹر ساجد حسین )
ہمارے بعض ژولیدہ فکر دانشوروں نے جس طرح کی غلط فہمیاں جمہوریت کے بارے میں پھیلائی ہیںاسی طرح کی بے سروپاباتیں سیکولرازم کے حوالے سے بھی عام کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ان کی جانب سے عموماًایسا پراپیگنڈہ منظرعام پر آتا ہے کہ سیکولرازم مذہب کے خلاف ہے،سیکولرریاستیں مذہبی اقدار کو پامال کرتی ہیں،سیکولرریاستوں میں مذہبی ادارے غیر محفوظ ہوتے ہیںاور ریاست کی طرف سے مذہبی شعائر اور عقائد کو ناپسندیدگی کی نظرسے دیکھا جاتاہے۔بدقسمتی سے اردو زبان وادب کی دنیامیں بہت بڑا نام رکھنے والی ایک شخصیت نے تو سیکولرازم کا ترجمہ ہی لادینیت کردیا تھا اور یہی ترجمہ اکثروبیشتر سیکولرازم مخالف عناصر اپنی گفتگوﺅں میں کرتے ہیں۔بات یہاں تک آکر ہی ختم نہیں ہوئی بلکہ سیکولرازم کا مطلب اباحیت پسندی اور جملہ اخلاقی اقدار سے بغاوت بھی مشہور کردیا گیاہے۔چنانچہ اگر کہیں کوئی غیراخلاقی فعل زیربحث ہوتا ہے تو اس کو سیکولرازم کیساتھ منسوب کردیا جاتا ہے اور ایسا کرنے میں ہمارے نام نہاد دانشور اور ذرائع ابلاغ بھی پیش پیش پائے گئے ہیں۔افسوس کی بات یہ ہے کہ سیکولرازم کے مخالف اور یہ سارا طوفان اٹھانے والے نہ سیکولرازم کے تصورکو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں اور نہ ہی اچھے سیکولرمعاشروں کی تاریخ میں سیکولرروایات کو دیکھنے اور اسکا اعتراف کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔حالانکہ سیکولرازم مذہبی اقدار کو ختم کرنے کی بات ہرگز نہیں کرتااور نہ ہی اس کے معاشرے پر اثرانداز ہونے سے انکاری ہوتاہے۔صحافت کا طالبعلم ہونے کے ناطے جو میں نے آج تک سیکولرازم کے بارے میں پڑھااور سنا اس کا کلیدی نکتہ یہی ہے کہ سیکولرازم انسانی معاشرے کی تنظیم وانظباط کاایسا ریاستی نظام ہے جو واضح طور پر طے شدہ جغرافیائی حدود میں پیدا ہونے اور بسنے والے تمام انسانوں کے بلاامتیاز تحفظ،بہبوداور ترقی وخوشحالی کی ذمہ داری قبول کرتا ہے۔سیکولرریاست ان مقاصد کے حصول کے لئے فہم عامہ،اجتماعی مشاورت اور انصاف کے اصول بروئے کار لاتی ہے۔ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم بیک وقت دوطرح کے المیوں سے دوچار ہیں ایک مادی پسماندگی دوسرا فکری افلاس۔اس افلاس کے نتیجہ میں لوگ اپنی پسماندگی کے اسباب کو جاننے کی اہلیت نہیں رکھتے اور ان میں یہ صلاحیت بھی نہیں پائی جاتی کہ وہ اپنے ادبار کو اس کے اسباب وعوامل کیساتھ سمجھ سکیں۔بلکہ اکثرصورتوں میں ان کا فکری افلاس خودترقی اور ترقی یافتہ تمدن کے بارے میں بھی ان کو منفی رویئے اختیار کرنے پر مجبور کرتا ہے۔اگر جمہوری قدروں کاباریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو جمہوریت اور سیکولرازم ایک دوسرے کے لئے لازم وملزوم پائے گئے ہیںکیونکہ جمہوریت میں اقتداراعلیٰ عوام کی ملکیت ہوتا ہے،قانون کی نظر میں تمام شہریوں کی برابری قائم کئے بناءجموریت کا پودا کسی صورت بھی پروان نہیں چڑھ سکتا،تمام شہریوں کی بہتری ،حفاظت اور ترقی کو یقینی بناناجمہوریت کا حتمی مقصد ہے،جمہوریت میں منظم اداروں،مربوط ضابطوں اور احتیاط سے تیار کی ہوئی پالیسیوں کی مدد سے کاروبار حکومت چلایاجاتا ہے،جمہوریت کی کامیابی کے لئے منصفانہ معاشی مواقعوں کی ضمانت ناگزیر سمجھی جاتی ہے اور سب سے بڑھ کر جمہوری نظام میں پچھڑے ہوئے علاقوں،گروہوں اور طبقات کو ترقی کے دھارے میں شریک کرنے کی شعوری کوشش کی جاتی ہے جبکہ سیکولرازم میں ریاست کا مقصد ہماری زندگیوں کو بہتربناناہے۔سیکولرریاست اپنے شہریوں کے پیٹ میں غذا،بدن پرلباس اور سر پر چھت فراہم کرنے کی ذمہ داری اٹھاتی ہے۔ان کے لئے مناسب روزگاراور تفریحات کی فراہمی ریاست کی ذمہ داری ہے۔سیکولرریاست شہریوں کو حصول علم اور مختلف فنون میں ذوق پیدا کرنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔ان کے جان ومال اور شخصی آزادیوں کی حفاظت کرتی ہے۔سیکولرریاست کا فرض ہے کہ ایسے قوانین،ادارے اور پالیسیاں اختیار کرے جن کی مدد سے معاشرے سے جرائم اور تشدد کو ختم کیاجاسکے،جہالت مٹائی جاسکے،غربت کا قلع قمع کیا جاسکے اور بیماریوں کی روک تھام کی جاسکے مگربدقسمتی سے جہالت کا عنصر غالب ہونے کی وجہ سے ہمارے جیسے معاشروں میں سیاسی جماعتیں ایک دوسرے پر اکثروبیشتر الزام تراشی کرتی نظر آتی ہیں کہ فلاں حکمران ملک کو سیکولربنانے کی ایجنڈا پر عمل پیرا ہے۔معذرت کیساتھ ملک کی بڑی مذہبی جماعتوں کی جانب سے ایسی الزام تراشیاں تو روز کا معمول ہیں حالانکہ میری سمجھ بوجھ کے مطابق جمہوریت اور سیکولرازم ایک ہی تصویر کے دورخ ہیں۔عوام کی سادگی اور لاعلمی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سیاسی مداری سیکولرازم کو فحاشی سے منسوب کرکے اپنی سیاسی دکانداری چمکانے کی کوشش میں رہتے ہیں۔ایسے عناصر جمہوری نظام کا حصہ بن کر کرسی اقتدار پر براجمان ہونے کاخواب تودن رات دیکھتے ہیں مگر ساتھ ساتھ سیکولرازم کو مذہب کے منافی قرار دیکر مذہب کے ٹھیکیدار ہونے کا ثبوت پیش کرنے کی بھی بھرپور کوشش کرتے ہیں۔جمہوریت اور سیکولرازم کے کلیدی نکات میں گہری مماثلت ثابت ہونے پر کسی ملک یا قوم کے لئے سیکولرہونا کوئی گالی یاطعنہ نہیں بس سیکولرازم کے لفظ کو ہضم کرنے کے لئے عقل وشعور کی منازل کوطے کرنا شرط ہے۔

کوئی تبصرہ نہیں

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

Translate »
error: Content is protected !!
Exit mobile version