گائےاور بکری تقابلی جائزہ کالم کہکشائوں سے تصدق حسین

0
1046

گائے دودھ دیتی ہے اور گوبر بھی، دودھ پینے کے کام آتا ہے۔ گوبر سے اوپلے بنتے ہیں ۔ دودھ طاقت دیتا ہے۔ اگر دودھ زیادہ کڑ جائے تو ہضم نہیں ہوتا ،پیٹ خراب کر دیتا ہے۔ خراب پیٹ میں گڑ گڑ ہوتی ہے اور لوز موشن آتے ہیں ۔ کئی بار بندے کو منجھی کے پائے پر بیٹھنا پڑتا ہے۔ دودھ سے مکھن اور مکھن سے دیسی گھی بنتا ہے۔ دیسی گھی بلی کو ہضم نہیں ہوتا۔ دیسی گھی اب بندوں کو بھی ہضم نہیں ہوتا ۔ دیسی بندے ولائتی گھی کھاتے ہیں ۔ بھرے پیٹ پر ہاتھ پھیر کر برسرعام آسودگی بھرا ڈکار لیتے ہیں اور ولائتی زبان میں بات کرتے ہیں ۔ دھوتی پہنتے ہیں ، حقہ پیتے ہیں اور ڈیڈی کہلواتے ہیں ۔ پہلوان مکھن کھاتے تھے۔ اب نہ پہلوان رہے نہ مکھن رہا۔ دل کے مریض رہ گئے۔

مکھن قلم کے پیٹ میں اتر گیا۔ اب مکھن لگاتے ہیں ۔ مکھن ملائم ہے۔ بندہ پھسل جاتا ہے اور کام بن جاتا ہے۔ دودھ پھٹ جائے تو پنیر بنانے کے کام آتا ہے۔ پنیر کی خاص اہمیت ہے۔ اسے بندر پسند کرتے ہیں اور بندے بھی۔ بندر اور بندے کا ارتقائی رشتہ ہے اور اس رشتے میں پنیر ایک جوائننگ لنک ہے جبکہ دمچی کی ہڈی ایک مسنگ لنک ہے۔ پھسلنے سے یاد آیا جو لوگ چلنے میں احتیاط نہیں کرتے وہ گائے کے گوبر میں پائوں دھر دیتے ہیں اور لبڑ جاتے ہیں ۔ کئی بار پھسل بھی جاتے ہیں اور مزید لبڑ جاتے ہیں ۔ یہ گائے کا انتقام ہے اور یہ پیغام ہے کہ احتیاط سے چلیں ۔ بندے کا پائوں لبڑ جائے تو بندہ تا دیر اسے ادھر ادھر گھسیٹ کر صاف کرتا ہے۔ صاف ہو بھی جائے تو وہم لگا رہتا ہے کہ صاف نہیں ہوا۔اور اگر بندہ پھسل کر گر جائے تو پورا ہی لبڑ جاتا ہے۔ تب بندے کو مکمل اوورحال کروایا جاتا ہے۔

مکھن سے پھسلنا گوبر سے پھسلنے سے بدرجہ بہتر ہے۔ مکھن اور گوبر دونوں گائے کی پروڈکٹس ہیں ۔ یہ بندے پر منحصر ہے اس نے کس سے پھسلنا ہے لیکن پھسلنا مقدر ہے جبکہ گرنے کی چوائس تدبر ہے۔

گائے بچھڑا بھی دیتی ہے اور ہل بھی جوتتی ہے۔ گائے سے ہل جتوانا ایک آرٹ ہے۔ یہ آرٹ صرف دیہاتی جانتے ہیں جبکہ بچھڑا جنوانا ایک سائنس ہے۔ یہ سائنس بھی دیہاتیوں کو معلوم ہے اور دیسی عقل اور تجربے کی غماز ہے۔ بچھڑا گائے کو چونے کے کام آتا ہے۔ بچھڑا گائے کو چونگ کر تیار کر دیتا ہے اور پھر اسے الگ کرکے دودھ نکال لیا جاتا ہے۔ چنانچہ ثابت ہوا کہ گائے کا دودھ نکالنے کے لئے ایک عدد بچھڑا ہونا بہت ضروری ہے اور بچھڑا ہونے کے لئے ایک عدد بیل کی ضرورت ہے۔ چنانچہ گائے کے ساتھ ایک بیل بھی پالنا پڑتا ہے۔ اسے ایک دفاعی ضرورت کہہ لیں ۔ اضافی خرچہ تو ہے لیکن بچھڑے اور دودھ کے لئے بیل ناگزیر ہے۔ یہ سارا دن چارا کھاتا ہے اور جگالی کرتا ہے۔ ضرورت پڑنے پر خوشی خوشی اپنا رول ادا کرتا ہے۔ کئی بار پیسے لے کر ہمسائیوں کی ضرورت بھی پوری کر دی جاتی ہے۔ یہ بیل ایک باپ کی مانند ہے اور ھہل جوتنے کے کام بھی آتا تھا لیکن جب سے ماڈرن مشینیں آئی ہیں افزائش نسل کے حوالے سے اس کا ایک ہی دفاعی رول رہ گیا ہے۔ البتہ کھیل کھیل میں بل فائٹنگ میں حصہ لیتا ہے اور لوگوں کے منو رنجن میں اضافہ کرتا ہے۔

بچھڑے کی افادیت کی وجہ سے تاریخی طور پر اس کی بڑی اہمیت رہی ہے اور یہودی قوم نے سونے کا بچھڑا بنا کر اس کی پرستش شروع کر دی تھی ۔اگرچہ وہ وقت گزر گیا لیکن یہ پرستش کچھ قوموں میں آج بھی جاری ہے اور گائے اور بچھڑے کو مقدس مان کر ان کی پوجا کی جاتی ہے، گلوریفائی کیا جاتا ہے۔

ہندو تو گائے کو مقدس مانتے ہی ہیں ۔ یہ مذہبی خشوع و خضوع کچھ اور قوموں میں بھی نمایاں نظر آتا ہے۔ مقدس گائے سے یاد آیا ہم بچپن میں ایک کہانی سنتے تھے اس دنیا کو ایک گائے نے اپنے ایک سینگ پر اٹھا رکھا ہے۔ جب وہ تھک جاتی ہے تو دنیا کو دوسرے سینگ پر منتقل کر دیتی ہے۔ اس سے دنیا میں زلزلے ، سیلاب اور سونامی آتی ہیں اور خوب تباہی مچتی ہے۔ بڑے ہو کر جانا یہ کہانی درست ہی تھی اور آج بھی اسی گائے نے دنیا کو اپنے سینگوں پر اٹھا رکھا ہے اور تباہی کا سلسلہ جاری و ساری ہے۔ یعنی ہم آج بھی گائے کے عہد میں جی رہے ہیں۔

گائے تو دودھ دیتی ہے اور گوبر بھی جبکہ بکری دودھ دیتی ہے اور مینگنیاں بھی۔ گوبر سے تو اوپلے بنتے ہیں جن سے آگ جلائی جاتی ہے۔ دودھ کاڑھا جاتا ہے اور کھانا پکتا ہے اور ہاتھ سینکے جاتے ہیں جبکہ راکھ یعنی سوا دشمن کے سر ڈالنے کے کام آتی ہے لیکن بکری کی مینگنیوں کی کیا قومی اہمیت ہے۔ اس کے متعلق سماجی و معاشرتی راوی خاموش ہے۔ بکری اگر دودھ دے اور اس میں مینگنیاں ڈال دے تو دودھ میٹھا نہیں ہو جاتا۔ خراب ہو جاتا ہے لیکن ایسا خراب نہیں کہ پنیر بنایا جا سکے ۔ پینے کے قابل نہیں رہتا۔ راوی اس متعلق بھی خاموش ہے۔ بکری دودھ میں مینگنیاں ڈالنے کی شرارت کیوں کرتی ہے۔ اسے آپ بکری کا انتقام کہہ لیں ۔ ہم نے بکری کو روائتی طور پر بزدلی کی علامت بنا رکھا ہے اور اپنے مخالفین اور دشمنوں کو آ بکری کہہ کر بھاگ جاتے ہیں ۔ بکری کو یہ علامت سخت ناپسند ہے۔ چنانچہ وہ اکثر ٹوڈھ یعنی ٹکر مار کر اپنی بہادری کا مظاہرہ کرتی ہے۔ بکری کی ٹوڈھ سے سب ڈرتے ہیں ۔ پھر بھی اسے بکری کہتے ہیں ۔

بکری کو میں میں بہت پسند ہے۔ ہر وقت میں میں کرتی رہتی ہے۔ بندے بھی میں میں کرتے ہیں ۔ راوی اس کے متعلق بھی خاموش ہے۔ یہ میں میں کرنا بکریوں نے بندوں سے سیکھا تھا یا بندوں نے بکریوں سے تربیت حاصل کی تھی۔ جوں جوں بندہ ترقی کرتا ہے اس کی میں میں بھی بڑھتی ہے اور انا بھی۔ تب وہ دودھ دیتا ہے اور مینگنیاں ڈال دیتا ہے ۔ یہ وہ مقام ہے جب کہا جاتا ہے ” بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی، ایک دن چھری کے نیچے آئے گی” اور یہ بکرے کی ماں ظاہر ہے بکری ہی ہے۔ بکری ہو یا بکرا جتنی مرضی میں میں کرے ۔ آخر میں کھانے کے کام ہی آتا ہے اور اس کی قربانی کی جاتی ہے۔

قربانی سے یاد آیا ۔ کچھ سیانے لوگ عید رات پر سستا بکرا خریدنے چلے جاتے ہیں اور غلطی سے بکری لے آتے ہیں پھر اس کے تھنوں کو ہاتھ لگا لگا کر کبھی ہنستے ہیں کبھی روتے ہیں ۔ قربان ہونا مقدر ہے اور بکری یا بکرے کی چوائس تدبر ہے۔

گائے اللہ کا تحفہ ہے۔ اسی لئے کہتے ہیں رب کا شکر ادا کر بھائی جس نے ہماری گائے بنائی۔ بکری بھی اللہ کا تحفہ ہے۔ اسی لئے کہتے ہیں میں میں مت کر جانی ایک دن ہونی تیری قربانی ۔ یہ آپ کی چوائس ہے آپ ایک گائے کی زندگی جینا چاہتے ہیں یا بکری کی۔گائے تدبر سے مقدر اور بکری مقدر سے تدبرہے۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں