تحریر ڈاکٹر ساجد حسین آئندہ عام انتخابات کا جائزہ کالم لوح قلم

0
1056

آئندہ عام انتخابات کا جائزہ
لوح قلم
(تحریر:ڈاکٹرساجدحسین)
لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم کی آئی ایس آئی کے سربراہ کی حیثیت سے تعیناتی کاباقاعدہ نوٹیفکیشن جاری ہونے پر چائے کی پیالی میں اٹھنے والاطوفان بھی دم توڑگیا۔میںوزیرداخلہ شیخ رشید احمد کے اس بیان سے 100فیصد متفق ہوں کہ فوج اور حکومت ایک پیج پرہیں اور بہت سارے لوگوں کی حسرتیں اپنے انجام کو پہنچ گئیں۔جی ہاں!ان حسرتوں کا انجام تک پہنچنا صرف ملک وقوم کے ہی فائدہ میں نہیں بلکہ جمہوریت پسند حلقوں کے لئے بھی باعث مسرت ہونا چاہیئے کیونکہ اہم مسئلہ پر تمام معاملات خوش اسلوبی سے طے پاگئے۔اس مسئلہ کو لیکر کچھ دنوں سے سوشل میڈیا پربھی ایک طوفان برپا تھا جو کہ اللہ اللہ کرکے اپنے اختتام کو پہنچا۔فیس بک اور ٹوئٹر کے متعدد دانشور مذکورہ معاملہ کو بہت بڑے ایشو میں تبدیل کرکے حکومت کو روانگی کا پروانہ تھامنے کی جدوجہد میں لگے ہوئے تھے۔حکومت کے خاتمہ اور قبل ازوقت انتخابات کی دھڑادھڑ پیش گوئیاں کی جارہی تھیں مگر آئی ایس آئی کے سربراہ کی تعیناتی کا نوٹیفکیشن جاری ہونے کے بعد سوشل میڈیا پربرپا طوفان اختتام پذیرہوا۔جو لوگ قبل ازوقت انتخابات کے خواہش مند ہیں ان کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ اگر تاریخ کے اوراق کو بغور دیکھا جائے توپاکستان کی سیاست زیادہ تر واقعات یاسانحات کی محتاج رہی ہے۔ اس کی واضح مثال 2008ءکے عام انتخابات ہیں جب سابق وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کو شہید کردیا گیا اور عوام نے اسی ہمدردی کے تحت پاکستان پیپلزپارٹی کو کرسی اقتدار پر براجمان ہونے کا موقع فراہم کیا۔موجودہ ملکی سیاسی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو آج کل اپوزیشن سیاسی جماعتیں مہنگائی کے ایشو کو لیکر حکومت کے خلاف سراپااحتجاج ہیں۔مذکورہ احتجاج کی شدت کو دیکھا جائے تو اس میں اتنی جان محسوس نہیں ہوتی کہ اسلام آباد میں کوئی سیاسی تبدیلی رونماہوسکے۔اگر کوئی بڑا سانحہ یا واقعہ پیش نہ آیا تو میرا نہیں خیال کہ قبل ازوقت انتخابات کی کوئی گنجائش باقی ہے۔ اگلے عام انتخابات بظاہر 2023ءمیں ہی ہوتے ہوئے نظر آرہے ہیں اور سب سے بڑا سیاسی دنگل یقینی طور پر پنجاب میں ہی لگے گا۔کچھ ہفتے قبل پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے دورہ جنوبی پنجاب کے دوران یہ امید کی جارہی تھی کہ وہاں کی قدآور سیاسی شخصیات پیپلزپارٹی کے کیمپ میں جا کر بیٹھ جائیں گی ۔جہانگیر ترین گروپ کے کچھ لوگوں کے بارے افواہیں گردش میں تھیں کہ وہ پیپلزپارٹی میں شمولیت اختیار کریں گے مگر ایسا نہ ہوسکا۔بلاول بھٹو زرداری کے جنوبی پنجاب سے خالی ہاتھ لوٹ جانے کے بعد ایک بات تو واضح ہے کہ پنجاب میں آئندہ عام انتخابات میں بھی پاکستان تحریک انصاف اور مسلم لیگ(ن) کے درمیان ہی کانٹے کا مقابلہ متوقع ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ کورونا کے عذاب اور معاشی مشکلات کے باعث ملک کے عوام مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں مگر پنجاب میں ہونیوالے اب تک کے ضمنی انتخابات میں زیادہ ترحلقوں میں ہارنے کے باوجود تحریک انصاف کے ووٹوں میں اضافہ دیکھنے میں آرہاہے۔مسلم لیگ(ن) کی جیت کا مارجن کم ہونے کیساتھ سیالکوٹ کے صوبائی حلقہ سے مسلم لیگ(ن) کی پکی سیٹ پر تحریک انصاف کی کامیابی اس بات کامظہر ہے کہ اگلے انتخابات میں کوئی بھی پارٹی آسانی سے پنجاب میں کامیابی نہیں سمیٹ سکے گی بلکہ میچ آخری گیند سے ہوتے ہوئے سپر اوور میں داخل ہونے کی بھی شنید ہے۔خیبرپختونخواہ میں بھی کوئی بڑااپ سیٹ ہوتا ہوا محسوس نہیں ہورہا۔وہاں تحریک انصاف میں نئے دھڑے بندیوں کی قیاس آرائیاں توآئے روز کی جاتی ہیں مگر بعدمیں یہ بھی محض افواہیں ہی ثابت ہوتی ہیں۔اے این پی ،جے یوآئی (ف) اور پیپلزپارٹی میں اتنی سکت نہیں کہ وہ آئندہ الیکشن میں وہاں سے ڈارک ہارس ثابت ہوسکیں۔اگر صوبہ سندھ کی سیاسی صورتحال کا جائزہ لیاجائے تو وہاں اب تک کی سب سے تگڑی پارٹی پاکستان پیپلزپارٹی ہی نظرآرہی ہے جس کے ووٹ بنک میں ابھی تک کوئی بڑا ڈنٹ نہیں پڑسکا۔ کراچی سے متحدہ قومی موومنٹ پاکستان ،پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف کے مابین میدان سجنے کا امکان ہے جبکہ اندرون سندھ سے پیپلزپارٹی کا راستہ روکنا ابھی بھی آسان نہیں ہے۔بلوچستان میں بی اے پی، بی این پی مینگل،جمہوری وطن پارٹی،جے یوآئی(ف)،پیپلزپارٹی اورپختونخواہ ملی پارٹی ودیگر مقامی جماعتیں مضبوط حیثیت سے میدان میں ہونگیں۔اگر مجموعی طور پر دیکھا جائے تو تحریک انصاف،مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی ہی ابھی تک کی بڑی جماعتوں کے روپ میں اگلا الیکشن لڑنے کے لئے تیار نظرآرہی ہیں۔باقی آنے والاوقت ہی طے کرے گا کہ سیاسی اونٹ کس کروٹ بیٹھتاہے کیونکہ پورے وثوق کیساتھ کوئی بھی بات لکھنا یا ہرخبر پر دسترس کا دعوئے دار ہونا لاعلمی کی واضح مثال ہواکرتاہے۔ ویسے بھی سیاسی پنڈتوں کے مطابق سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا،سیاست شطرنج کا کھیل جس میں کوئی بھی لفظ حرف آخر نہیں ہوتا اور کھلاڑیوں کو زیادہ علم کہ انہوں نے کونسامہرہ کیسے اور کب چلنا ہے۔حتمی نتائج کا اعلان 2023ءمیں ہی ہوگا۔
نوٹ:میرے کالم کا مستقل عنوان لوح قلم ہے۔کالم کیساتھ راقم کی تصویر بھی لف کردی گئی ہے۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں